تعارف

جدید پیش آمدہ مسائل میں اجتماعی غور وفكر اور بحث وتحقیق كے ذریعہ مسئلہ شرعی كا تلاش كرنا كوئی نئی چیز نہیں؛بلكہ در اصل ‏فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم “اجمعوا له الفقهاء العابدين من أمتي، واجعلوه بينكم شورى ولا تقضوا برأي واحد” كی ‏اتباع اور سلف صالحین كے اجتماعی طریق كی پیروی ہے۔ عہد خیر القرون سے اس كی مثالیں موجود ہیں۔ عہدفاروقی میں اس طرح كی دو ‏مجلسوں كا ذكر ملتا ہے: ایك مجلس میں سیدنا عمربن الخطاب ص ‏، حضرت زید بن ثابت ص ‏ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ص شریك ‏تھے۔ جب كہ دوسری مجلس میں سیدنا حضرت علی ص ‏، حضرت ابی بن كعب ص ‏ اور حضرت ابو موسی اشعری ص شریك تھے۔ ‏صحابہ كرام كے بعد تابعین كے زمانہ میں مدینہ منورہ كے فقہاے سبعہ كی مجلس مشہور ہے۔ اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ‏اپنے چالیس مایہ ناز شاگردوں كے ساتھ اجتماعی اجتہاد وقیاس كے ذریعہ استنباط مسائل كا عظیم الشان كارنامہ انجام دیا۔عہد عالم گیری میں ‏علماء كے بورڈ كے ذریعہ فتاوی كی ترتیب اور خلافت عثمانیہ میں “مجلة الأحكام العدلية” كی تدوین‏، دوراخیر میں حكیم الامت حضرت ‏مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ كا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ‏،اكابرین كے تعاون سے ‏‏”الحيلة الناجزة للحليلة العاجزة” كی ترتیب وغیرہ ‏، اسی اجتہادی غور فكر كے ذریعہ استخراج واستنباط مسائل كی نظریں ہیں۔ ‏الحاصل ہر زمانہ میں علماے كرام نے یہ فرض ادا كیا اور الحمدللہ انھیں كے نقش قدم پر آج بھی كررہے ہیں۔

          تاریخ اسلامی شاہد ہے كہ دین حنیف      كی راہ میں جب بھی مشكلات پیدا ہوئی۔جس زمانہ اور جس ملك میں آفتاب اسلام كو گہن ‏میں لانے كی كوشش كی گئی تو خداوندقدوس نے ایسے علماے اسلام‏، فقہاء اور ارباب عزیمت‏ وخادمان قوم وملت كو وجود بخشا‏، جنھوں نے ‏كتاب وسنت كی روشنی میں مسائل كا حل پیش كیا اور مشكلات كا مداوا كیا۔ دور جانے كی ضرورت نہیں خود ہمارے ملك ہندوستان میں ‏مغربی استعمار كی اسلام كے خلاف جارحانہ سازشوں كے مقابلے میں خاص كر علماء دیوبند نے اسلام كی بقاء وتحفظ ‏،ملت كی اجتماعی شیرازہ ‏بندی اور اسلامی قوانین كے اجراء ونفوذ كے سلسلے میں جو جہد مسلسل كی وہ اسلامی تاریخ كا ایك درخشندہ باب ہے۔

اكابر واسلاف كی جماعت ”جمعیۃ علماء ہند“ حصول آزادی كے ساتھ ساتھ مسلمانوں كی دینی رہنمائی ‏،معاشرتی اصلاح اور احكام ‏اسلامی كے تحفظ واجراء كو بنیادی اغراض ومقاصد میں شامل كر كے ہمیشہ مسلمانوں كی مذہبی رہنمائی اور شرعی قیادت كا فریضہ انجام دیتی ‏رہی ہے۔ اس كے اركان وعہدہ داران میں روز اول سے وہ سر برآوردہ شخصیتیں شامل رہیں ‏،جن كو اپنے دور میں مذہبی پیشوائی كا مقام ‏حاصل تھا؛ اس لیے جمعیۃ علماء ہند كے اجلاس ہائے عام اور مجلس عاملہ ومنتظمہ میں پاس شدہ تجویزیں صرف تجویزیں نہیں ؛بلكہ مخصوص ‏حالات میں مذہبی فتاوی كی حیثیت سے قبولیت وانقیاد كا مقام حاصل كرتی رہیں۔ علاوہ ازیں تغیرات وانقلاب زمانہ كے پیش نظر جدید ‏پیش آمدہ شرعی مسائل كی تنقیح وتحقیق اور اجتماعی غوروفكر كے ذریعہ استنباط مسائل كے لیے 1980ء میں جمعیۃ علماء ہند نے مستقل ‏ایك شعبہ مشہور فقیہ ومصنف حضرت مولانا محمد میاں دیوبندی رحمۃ اللہ كی نگرانی میں “إدارة المباحث الفقهية” كے نام سے قایم كیا۔ ‏مولانا مرحوم تاحیات اس كے مدیر ونگراں رہے اور اپنے زمانے میں ”رویت ہلال‏“ ”حق تصنیف كی بیع“ اور ”كواپریٹو سوسائٹیوں كے ‏مسائل“ پر تنقیح كا كام انجام دیا۔ حضرت مولانا كے وصال كے بعد بھی كسی نہ كسی عنوان سے یہ سلسلہ جاری رہا۔اكتوبر 1985ء میں ‏نفقہ مطلقہ كے مسئلہ پر ”علماء كانفرنس“ اسی سلسلے كی ایك كڑی تھی۔ امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ كی مسلسل ‏تحریك پر 1990ء میں مجلس عاملہ نے اپنی ایك تجویز كے ذریعہ “إدارة المباحث الفقهية” كی نشاۃ ثانیہ كی اور جدید مسائل میں ‏اجتماعی غور وفكر كا سلسلہ باقاعدہ دوبارہ شروع كیا۔ اس سلسلے میں اب تك اٹھارہ فقہی اجتماعات منعقد كیے جاچكے ہیں اور اللہ رب العزت ‏كے فضل وكرم سے یہ سلسلہ ابھی تك جاری وساری ہے۔

آئندہ فقہی اجتماع
سابقہ فقہی اجتماعات​
سابقہ فقہی اجتماعات​